Just Bliss

Thank you so much  Chriti Moise  for nominating me for the Shine on award

These are rules to follow for this award :

1.) Show appreciation of the blogger who nominated you and link back to them in your post.
DONE !
2.) Add the award logo to your blog.
DONE !
3.) Share 7 things about yourself.
A few things about me you’ll find if you visit this blog or you can try here:)

4.) Nominate 5 – 10 or so bloggers you admire.

Seven things about me

 

 

 

Thank you Ajaytao for nominating me for the award

Seven thing about me

 

سوئ تن بدن سنوارے ڈوئ من کی آگ

بجھائے۔ یہ دونوں انسان کی حیا ، بقا اور

چھب کے لئے کتنے اہم سہولت کار ہیں۔ مگر

انسان ان دونوں سے بے نیاز ہے۔ اسی بے توجہی

زندگی دشوار شورش کا شکار ہے۔ حضرت

ادریس علیہ السلام نے تو سوئ ایجاد کی درزی

کا پیشہ اپنایا اور خلق خدا کے لئے آسانی پیدا

کی۔ ربلعالمین نے پھولوں پتوں، پرندوں، پتھروں

پہاڑوں، بادلوں، دھنک، میں اتنے بے شمار رنگ

اور ڈیزائن بنا دئیے کہ انہیں کو دیکھ کر آج دنیا

بھر میں لباسوں کی آرائش و نمائش ہوتی ہے۔

صرف ایک سوئ کے استعمال سے انسان نے اپنی

معیشت کو دوام دیا۔

اسی طرح ڈوئ نے بھی اپنی افادیت سے دنیا بھر

میں دھوم مچا دی۔ سوئ کے صحیح استمعال

سے خانساماں ، باورچی سے شیف بن گئے اور

مرد، خواتین باعزت روزی کمانے لگے۔ اب ڈوئ

کا استمال یعنی لکڑی کے چمچے، ڈیو فیشن میں

آگئے۔ حالانکہ پہلے گاوں گوٹھوں میں ہی

استعمال ہوتے تھے۔

اتنا سب کچھ جاننے سمجھنے کے باوجود ڈراموں

میں من پسند شادی کرنے والی لڑکیاں سوئ اور

ڈوئ کے استعمال سے نالاں ہیں۔ ہر وقت کے

جھگڑے کی ذیادہ وجہ یہی ہے ۔ جب کے بچپن

سے سنتے چلے آئے ہیں کہ شوہر کے دل کا راستہ

معدہ سے جاتا ہے۔ لیکن اب نہ دل سے تعلق رہا نہ

معدے کی اہمیت۔ معدہ تو نکلوانا ہی پڑتا ہے۔

ہمارے والد مرحوم تو کہتے تھے کہ وہ عورت ہی

نہیں جس کو سوئ اور ڈوئ کا استعمال کرنا نہ

آئے۔

تنویر روف

tanveer808@yahoo.com

آج بھی اگر تن کے کھیت پر من کا ہل چلائیں تو

زندگی آسان ہو جائے گی۔

کیونکہ ابھی تو تن , من , دھن , سب ، ظلم و

جبر، نا انصافی راہ روی کی آگ میں جل رہا ہے

مگر اسکا ازالہ بھی تو ہمیں ہی کرنا ہے ۔

معاشرے کی خرابی کی اصل وجہ اخلاقی

اقدار کی پاسداری نہ کرنے سے ہوتی ہے۔ اسی

وجہ سے ہر ملک میں بے جینی ، بے نیازی، تعصب

بے راہ نفسہ نفسی ، فحاشی پھیل رہی ہے۔ کسی

طرح طرح سے بھی نظر بھرتی ہے نہ نیت۔

بس ! صرف اور،،، اور ،،،، اور۔۔۔ کی طلب

اور ہوس نے کہیں کا نہیں رکھا۔

ذرا ذرا سی بات پر اب دست و گریباں اب نہیں

ہوتے کیونکہ صبر برداشت ختم ہو چکا ہے۔ اب

تو سیدھی گولی چلا دیتے ہیں۔ ہماری انتہائ

قابل ایک ٹیچر کو صرف اس لئے سر پر گولی

مار دی کہ وہ شادی سے آرہی تھی پھر بھی زیور

سے آراستہ نہیں تھی جو ان بد بختوں کو دیتی

ایک ہفتہ وینٹیلیٹر پر بیہوش رہ کر اپنی جان

سے گئ۔ ایک عالم کی موت عالم کی مو ت ہے۔

ہمارا معاشرہ تو مردہ ہو چکا ہے ورنہ؛

کبھی تھے جوالا

ابھی خاک ہیں ہم۔

وہی خاک ہیں ہم

بڑے المناک ہیں ہم

خزاں سے جو اتری

وہ پوشاک ہیں ہم

یا ربالعزت ہمیں ہدایت دے کہ ہم بھی بلا تفریق

تن کے کھیت پر من کا ہل چلا کر خالق اور

مخلوق کو محبت خدمت اور اخلاص سے راضی

کرسکیں ۔ آمین اللہ ہمہ آمین

تنویر روف


  • شخصیات، انٹرویوز

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ،تنویر رؤف

0

ابو عبیدہ بن جراحؓ کا تعلق قریش قبیلے سے تھا- ان کے والد عبداللہ بن جراح


اپنے قبیلے کے سردار تھے، نہایت بہادر اور جنگجو ۔ مگر اپنے اجداد کی


طرح بُت پرست کافر۔
ابو عبیدہ اپنے داد کی نسبت سے زیادہ مشہور ہیں ۔ ابو عبیدہؓ ابھی صرف پانچ


برس کے ہی تھےکہ ان کے والد نے ان کے دونوں ہاتھوں میں وزن پکڑا کر


اٹھک بیٹھک کی مشق کروانی شروع کردی اور جب ابو عبیدہ آٹھ برس کے


ہوئے تو بیک وقت تیر اندازی اور وزن اُٹھانے میں ماہر ہو چکے تھے۔


10 سال کی عمر تک ایک ہا تھ سے تیر اندازی اوردوسرے ہاتھ سے بیلوں کو


قابو کرنے میں مہارت بڑھ گئی ۔ سواری کرتے ہوئے بھی تیر نشانے پہ لگتا


اور ساکت چیز دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی۔ سواری کرتے ہوئے بھاگتے اُڑتے


پرندوں اور جانوروں کو نشانے پر لے لیتے۔ اس وقت تک انہوں نے اسلام


قبول نہیں کیا تھا اور والد کی طرح کافر تھے۔


جب پتہ چلا کہ حضرت ابو بکر نے حضرت محمد کے ہاتھ پر اسلام قبول


کرلیا ہے تو اگلے دن ہی جا کر کلمہ پڑھ لیا اور حلقۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔


اُس وقت ان کی عمر 28 برس تھی۔ تعلیم و تربیت ساتھ ساتھ جاری رہی۔ انہوں


نے نبی پاکً کے ساتھ مکہ ، مدینہ ، حبشہ بھی ہجرت کی۔ اسی طرح تمام


غزوات میں بھی پیش پیش رہے۔


جنگِ احد میں مسلمان تیر انداز جب اپنا مخصوص مورچہ چھوڑ کر مالِ غنیمت


حاصل کرنے میں مصروف ہو گئےتو کفار نے پلٹ کر حملہ کردیاجس کی وجہ


سے کافی شہادتیں ہوئیں ۔ اسی معرکہ میں دشمن کے حملے میں نبی پاک کے


چہرے مبارک پہ جو حفاظتی شیلڈ تھی وہ چہرے میں گڑ گئی ۔ دو دانت بھی


شہید ہوگئے۔ اس موقعے پہ ابو عبیدہ بن جراح نے اپنے دانتوں سے کھینچ کر


ایک طرف سے نکالا تو اُن کا اپنا بھی ایک دانت ٹوٹ گیا۔مگر تکلیف کی پرواہ


نہ کرتے ہوئے دوسری کڑی بھی دانتوں سے کھینچ کر نکال دی اور اپنا دوسرا


دانت بھی قربان کردیا۔ ایسی تھی محبت ، عقیدت اور وفاداری۔


ابو عبیدہ بیحد ذہین اور زیرک انسان تھے۔ وہ نہ صرف با کردار، جفاکش،


بہادر جنگجو تھے بلکہ سپاہ گری کے ہر فن میں مشاق تھے۔ نبی پاک صلئ


اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں انہیں دشمن کی جاسوسی کرنے بھی بھیجا۔ انکی


یادداشت کمال درجہ کی تھی۔ وہ دشمن کے درمیان ایسے گھس جاتے کے کسی

کو گمان بھی نہ ہوتا۔ دور سے جانوروں کے کھروں اور لید سے اندازہ لگا


لیتے کہ کتنے گھوڑے، کتنے خچر، مال بردار اونٹ، مویشی کتنی فوج، خیموں


کی تعداد، ہیں۔ اور دشمن کی خفیہ پنا گاہیں اور مورچے کہاں ہیں۔ جنگ میں ان


سب معلومات کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ گوریلا جنگ کی تکنیکی ترجیحات سب


سے پہلے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے استمعال کیں۔


ابو عبیدہ کی جنگی مہارت، جرآت، ذہانت، اخلاق، نرم لہجہ اور موقع شناسی


دیکھ کر انکو کمانڈر شام کا کمانڈر ان چیف بنا دیا گیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو


شمشیر اسلام یعنی اسلام کی تلوار کہا جاتا اور مانا جاتا تھا لیکن ایک جنگ میں


حضرت عمرؓ نےابو عبیدہ کو حضرت خالد کی جگہ کماندار بنا کر بھیجا۔ پھر


حبشہ کا گورنر بنادیا۔ اس زمانے میں حبشہ کا عیسائ حکمران سیزر تھا۔ جو


مسلمانوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا تھا۔


حضرت عمر ایک دفعہ ابو عبیدہ کی خبر گیری کرنے حبشہ گئے۔ حضرت


عمرؓ نے ان سے انکے گھر جانے اور کھانا کھا نے کی خواہش کی تو ابو عبیدہ


نے ٹال مٹول کی مگر حضرت عمرؓ ان کے گھر گئے تو وہاں دیوار پر


صرف تیر کمان، اور فرش پر صرف ایک گدا ایک دری اور ایک جگ


دیکھا،حضرت عمر نے ان سے کہا کہ وہ گورنر ہیں اچھی طرح رہنا چاہئے ۔


پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ وقت نے ہم سب کو تبدیل کردیا مگر تم ویسے ہی


ہو۔ ابو عبیدہؓ اسلام کی تبلیغ بھی بہت خوبصورت انداز میں کرتے تھے۔


نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ہی ابو عبیدہ کو جنت کی بشارت


دے دی تھی۔ یہ ان دس افراد میں سے ہیں جنکو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔


ا ن کے والد بہت بہادر جنگجو تھے مگر مرتے دم تک کافر ہی رہے۔ مسلمانوں


کے ساتھ جنگ میں ہمیشہ اپنےبیٹے کو قتل کرنا چاہتےتھے ۔ ابو عبیدہ ہر


دفعہ ہوشیاری سے بچ جاتے مگر کبھی والد پر حملہ نہیں کیا۔ جنگ بدر میں


گھمسان کا رن پڑا اور ابو عبیدہ کے والد۔ نے انکو گھیر کر مارنا چاہا مگر ابو


عبیدہ بہت چابکدستی سے خود کو بچاتے ہوے اور نہ چاہتے ہوے بھی والد کو


قتل کردیا۔ حضرت ابو عبیدہ کا طاون کی وبا میں بیمار ہوکر اردن میں 45


برس میں انتقال ہوا-

70 سال کے جوان توجہ فرمائیں !

کچھ مہینوں سے میں ایک تبدیلی محسوس کر رہی تھی اب

کافی تجربہ ہوچکا ہے اس لئے سوچا کہ سب کو بتا دوں ۔

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس کرہ عرض پر ہم اپنے باوا

آدم اور اماں حوا کی بھول

چوک کی وجہ سے یہاں قید کاٹ رہے ہیں جب تک کہ رہائ

کا پروانہ آے۔ تو جیسے دنیا میں بنائ گئ مجرموں کی

جیل سے رہائ کے وقت قیدی کو جیل میں اسکا جمع شدہ

سامان واپس کر دیا جاتا ہے اور جیل سے ملا ہوا سامان 

بھی ایک ایک کر کے جیل میں دوبارہ جمع کرا دیا جاتا ہے۔

ہمارے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوتا ہے نا۔ وقت کے ساتھ

طاقت، جوانی خوبصورتی، وجاہت دھیرے دھیرے کم ہوتی

جاتی ہے۔ بال گرنا دانت، نظر ، یاد داشت، اعصاب غرض

کہ سر سے پاوں تک سب چیزوں کی واپسی شروع ہوجاتی

ہے۔ اور تو اور ہماری انگلیوں کے پوروں کی لکیریں تک

غائب ہونا شروع ہوگئ ہیں ۔ پبشن لینے کے لئے زندہ ہونا

ضروری ہے اور زندہ ہونے کا ثبوت دینا بھی ضروری۔ بنک

والے بیچارے ہمارے انگوٹھے اور انگلیوں کے نشانات لینے

کے لئے ہر طرح انکو دبا دبا کر کوشش کرتے ہیں مگر جب

انکی کوشش اور ہمت جواب دینے لگتی ہے تو شائد کچھ

بات بن جاتی ہوگی یا دستخط لیکر وہ اپنی اور ہماری جان

چھوڑتے ہیں ۔یعنی سب سامان واپس ہوگا صرف اعمال

ساتھ جائیں گے ۔ ٹائپ کرتے ہوے اکثر ہندسے، حروف غائب

ہوجاتے ہیں یا ادھر ادھر ہوجاتے ہیں ۔ اپنا لکھا ہوا خود

پڑھو تو کچھ کا کچھ نظر آتا ہے۔ یہ میں اپنا تجربہ بتا رہی

ہوں ۔ ضروری نہیں کہ سب کے ساتھ ایسا ہوتا ہو اس لئے

مجھے بڑا بھلا کہنے سے اجتناب کیا جائے ورنہ۔۔۔۔ 

ورنہ میں کچھ نہیں کرسکتی جناب!

اللہ پاک راضی ہوجائے۔ اعمال، عبادت، استقامت تو ہے نہیں

بس صرف کوتاہیاں نافرمانیاں اور ان گنت گناہوں کا ہی

سڑا بھسا ڈھیر ہے۔اب تو رب سے بس معافی کی التجا ہے۔

اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ

جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّ شَیْبَةًؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُۚ-وَ هُوَ الْعَلِیْمُ

الْقَدِیْرُ(۵۴)

ترجمہ: کنزالایمان

اللہ ہے جس نے تمہیں ابتدا میں کمزور بنایا پھر تمہیں

ناتوانی سے طاقت بخشی پھر قوت کے بعد کمزوری اور

بڑھاپا دیا بناتا ہے جو چاہے اور وہی علم و قدرت والا ہے

گولی اور گالی ۔۔۔

 دونوں کتنی ملتی جلتی ہیں دونوں زہر قاتل ہیں آئیے دیکھتے ہیں کیسے

 گالی کے رشتہ دار اور سہولت کار بھی ہیں جو گالی میں نفرت کا جذبہ ، جوش و جنوں، طنز، تضھیک، قہر آلود نظریں، چہرے اور ہاتھوں کے مختلف

مخالف کو جنونی بنا سکتے ہیں ، گالی کے اثر کو تیز کرنے میں کچھ جانوروں کے نام بھی شامل ہیں جو ہر زبان کی گالیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ گالیاں دینے

والے کا لہجہ جسمانی حرکات اور دہاڑتی آواز متاثرہ شخص کو دل کے دورے میں مبتلا کرسکتے ہیں ۔ جبکہ مستقل متواتر استمال جان لیوا بھی ہوسکتا ہے

یہ ایسا اقدام قتل ہوتا ہے جسکی چوٹ کا نہ نشان ہوتا ہے نہ آلہ قتل۔ آج ہماری پوری قوم اسی قبیح حرکت کا شکار ہے۔ گولی کی قسمیں بھی ہیں۔ عقلی اور اخلاقی

طور پر ہر عمر ، رشتے ، نیز کسی بھی منصب پر فائز افراد بے دریغ گولی کا بے خوف اور ڈھٹائ سے استمعال کر تے ہیں ۔ ایک قسم گولی باز کہلاتی ہے۔

یعنی بہانہ بنانا، جھوٹے وعدے کرنا، وقت کی پابندی سے فخریہ بے نیاز ہونا۔ بد گمانی پیدا کرنا، جھوٹی قسمیں کھانا۔ گولی کی مزید قسم گولی مارنے والے میں

جسارت ، بے رحمی ،اور حرام کمائ کی بے شرمی، بے حسی بے غیرتی ، ظلم، کے خمار سے بھرپور ہوتی ہے۔ قانون کیونکہ اندھا ہے اور انصاف نا پید اس

لئے ان کو کسی کے باپ کا ڈر نہیں ہوتا۔ موت اور اللہ کا ڈر بھی پیسے کی طاقت سے اندھا بہرا کر دیتا ہے۔ صُمٌّۢ بُكۡمٌ عُمۡىٌ فَهُمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَ ۙ‏ ﴿2:18﴾ گولی

تیسری قسم نہایت اعلئ ہے۔ جانباز مجاہد اپنے ملک، قوم کی حفاظت ، شجاعت جاںفشانی سے 24 گھنٹے سرحدوں پر، مورچوں میں کرتے ہیں تو پوری قوم رات

کو پرسکون سوتی ہے۔ اپنے گھر بار ، خاندان کو حبالوطنی کے جزبے سے سرشار ہوکر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے بلاآخر شہادت کا درجہ پاتے

ہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال شاعر مشرق : افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا 

Words illumined as the book opened

They lighted up my gloomy room

Flowers of emotions blossomed

My feelings lighted up with delight

Bygone delightful moments enliven

 A fragrance engulfed me and

 Memories cherished and uplifted my life

Your scattered letters spread all over

Brightened the gloomy room like stars

Those lost moments, the days we spent

Engrossed in oblivion and an oasis of dreams

The foggy attire mountains, misty abodes

Holding thy hand, walking in daylight

 In dense jungles or on concrete roads;

Are you disagreeing or riled on petty issues

Then adding sugar to tea and chuckling

Raising her beautiful eyes and smiling

Said; It makes the tea bitter if little sugar

 And with more, it is no more tea

To see her heated and joyful

Steam and aroma from the cup of hot tea

The twinkling dancing stars all around

Enhancing cordial ambiance gripping

Depressing wet eyes, dying evening lamps

 Heartbreaking to let pass those moments

My heart is sinking like that of sundowning

The opened old book carried me away from my past

نظم

کهلی کتاب تو لفظوں کی روشنی پهیلی
مرے اداس سے کمرے میں
پهول کهل اٹهے
چراغ جاں میں بهی
لو نے بهڑک کے ساته دیا
ہزار گزرے وہ لمحے
کہ جیسے جاگ اٹهے
مہک بهی جانفزا
سانسوں کو کر گئی گلشن
ترے خطوط جو بکهرے
ہوئے تهے چاروں طرف
ستارے بن کے
سیاہ رات میں چمک اٹهے
وہ بیتے لمحے
وہ دن رات
قصہ ہائے دور دراز
دور گمنام جزیروں کے سفر
دهند میں ڈوبے شهر
کہر میں لپٹے کہسار
دهوپ روشن میں اندهیرے جنگل
اجلی سڑکوں پہ
ترا ہاته پکڑ کے چلنا
روٹه کے چهوٹی سی باتوں پہ
ترا وہ لڑنا
چائے میں ڈال کے چینی کے بہانے
پهر سے
مسکراتے ہوئے
آنکهوں کو اٹها کے کہنا
“چائے میں چینی اگر کم ہو تو تلخی زیادہ
اور ہوجائے بہت میٹهی تو چائے نہ رہی”
روٹهنا روٹه کے من جانا
تها کتنا شیریں
گرم چائے کی پیالی سے
وہ اٹهتی ہوئی بهاپ
رقص کرتے ہوئے
مخمور ستارے ہر سو
ڈولتے ‘جهومتے
آنکهوں میں مناظر کیسے
بهیگتی آنکهیں
بهڑکتے ہوئے محفل کے چراغ
دل لگا شام ہوئے ڈوبتا سورج جیسے
کیا کهلی عہد گزشتہ کی کتاب
انور زاہدی

 

Utter Hastiness!

Perception of the universe

I’m aware of,

Images surface on the time tides

fatality is their destiny;

There’s no today and day after

The span of life is simply an instant

Countless metaphors rise to scatter

The loneliness of this symbol of infinity

Not only emergence to remain

Utter hastiness  wins through here

each day the photo change in the tavern

spirit doesn’t even breathe life’s sip

The death angel wipes out life’s sip

What an eerie hastiness, every instant

gulp down the other instant

Dust and water blended  to shape things

If the creation is to perish their, destiny

O, The Creator!

Don’t you loathe to see

 Your creation perish into dust!

The dance saga
I was;
crucified in gala nights of the east
was celebrated in bars of the west
was sold out in the name of dignity
paid my pride in the name of dignity;
In the marketplace, I’m of no rate now
neither get any share if yet sold now
I’m like an object of ardent need
Keep to use when the beloved need
Shape of my body sketched and drawn
My dream version is linkage of dreams
Put up for sale from one buyer to other
Fostering in trash pool of waste garbage
My death loop of dance saga spinning
Sans budding, sans desires, gloom spinning

Poet: Tasnim Abdi

‪with names images of gems‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ

Friend! It’s like this
Stones have their own sphere
They’re valued with atomic numbers
The Museum in Washington Gallery
There’s a precious stones gallery
There’s a necklace of some queen
A crown of a king renowned
Exquisite earrings of a princess
And, the value chain of a prince
The exquisite collection’s brilliance
All around the ambiance
The diamond dazzling the eyes
The stunning sapphire grip the eyes
The crimson ruby-like beloved lips
Appealing to be cherished
The green emerald refreshing
The Eyes of the Beholder
My friend shared the price and atomic number
Of every gemstone placed there
The supremacy illuminates
In the radiance of each gemstone
Everywhere in the Capital Hill building
Where whispers of nameless workers
Echo on the tall majestic pillars
The great scholar Ali Shariati heard
That thousands of buried slaves
Weeping In the Gigantic Pyramids
Unseen, unheard, and, unremarked
The naïve tourists see pyramids
In thorough wonder
Yes, my friend!
The same is the story of priceless stones
Slavery has been decided to be sold
Slaves traded even today
Regardless of gain or pain, they’re sold
IMF’s checkbook and cruise missile
The code-bearing slaves will
Be marked with atomic numbers

………………

“ہاں دوست ایسا ہی تھا “
پتھروں کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے
ان کے اٹامک نمبر ز سے
ان کی قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
واشنگٹن کے عجائب خانے میں
قیمتی پتھروں کی گیلری ہے

کسی ملکہ کا نیکلس
کسی بادشاہ کا تاج
کسی شہزادی کے آویزے
اور
کسی رئیس زادے کی مالا رکھی ہوئی ہے
جن کی چمک سے سارا ماحول
بقعہ نور بن چکا ہے
ہیرے کی چمک آنکھوں کو چکا چوند کر رہی ہے
نیلم کی نیلاہٹ نظر کو ساکت کر چکی ہے
یاقوت کی سُرخی
محبوب کے سرخ ہونٹوں کی طرح
بوسے کی طرف مائل کر رہی ہے
زمرد کی سر سبزی
دیکھنے والے کو شاداب نظر کر رہی ہے

میرا دوست مجھے
ہر پتھر کی قیمت اور اس کا اٹامک نمبر بتا رہا ہے
پتھروں کی چمک میں تکبرانہ مسکراہٹ ہے

کیپٹل ہل کی عمارت کے ہر گوشے میں
سرگوشیاں گونج رہی ہیں
وہ بلند و بالا ستون
جن پر گمنام غلاموں کے دستخط ہیں
وہی بے زبان نشان گونج رہے ہیں

اسی طرح
میرے عظیم مفکر شریعتی نے
سنا تھا کہ اہرام مصر کی آغوش میں
ہزار ہا مزدور قبروں میں رو رہے ہیں
اور بہرے تماشائی تماشا دیکھ رہے ہیں
ہاں دوست !
تمام بے قیمت پتھروں کی کہانی ایک سی ہے
غلامی کے شعبے کی نجکاری ہوچکی ہے
غلام آج بھی بِک رہے ہیں
تمام سود و زیاں سے عاری غلام بک رہے ہیں
آئی ایم ایف کی چیک بُک
اور کروز میزائل
ان کوڈ بردار جنس کے اٹامک نمبر کو طے کریں گے
………………
. Poet: Tasnim Abidi
Translator: Tanveer Rauf

Enter your email address to follow this blog and receive notifications of new posts by email.

Join 922 other subscribers

Archives

Archives

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930  

Shine On Award

Dragon’s Loyalty Award

Candle Lighter Award

Versatile Blogger Award

Awesome Blog Content Award

Inner Peace Award

Inner Peace Award

Inner Peace Award

Flag Counter

Flag Counter

Bliss

blessings for all

Upcoming Events