Shine On Award
Posted March 26, 2013
on:- In: Awards
- 99 Comments
Thank you so much Chriti Moise for nominating me for the Shine on award
These are rules to follow for this award :
1.) Show appreciation of the blogger who nominated you and link back to them in your post.
DONE !
2.) Add the award logo to your blog.
DONE !
3.) Share 7 things about yourself.
A few things about me you’ll find if you visit this blog or you can try here.
4.) Nominate 5 – 10 or so bloggers you admire.
Seven things about me
70 سال کے جوان توجہ فرمائیں !
Posted January 16, 2023
on:70 سال کے جوان توجہ فرمائیں !

کچھ مہینوں سے میں ایک تبدیلی محسوس کر رہی تھی اب
کافی تجربہ ہوچکا ہے اس لئے سوچا کہ سب کو بتا دوں ۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس کرہ عرض پر ہم اپنے باوا
آدم اور اماں حوا کی بھول
چوک کی وجہ سے یہاں قید کاٹ رہے ہیں جب تک کہ رہائ
کا پروانہ آے۔ تو جیسے دنیا میں بنائ گئ مجرموں کی
جیل سے رہائ کے وقت قیدی کو جیل میں اسکا جمع شدہ
سامان واپس کر دیا جاتا ہے اور جیل سے ملا ہوا سامان
بھی ایک ایک کر کے جیل میں دوبارہ جمع کرا دیا جاتا ہے۔
ہمارے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوتا ہے نا۔ وقت کے ساتھ
طاقت، جوانی خوبصورتی، وجاہت دھیرے دھیرے کم ہوتی
جاتی ہے۔ بال گرنا دانت، نظر ، یاد داشت، اعصاب غرض
کہ سر سے پاوں تک سب چیزوں کی واپسی شروع ہوجاتی
ہے۔ اور تو اور ہماری انگلیوں کے پوروں کی لکیریں تک
غائب ہونا شروع ہوگئ ہیں ۔ پبشن لینے کے لئے زندہ ہونا
ضروری ہے اور زندہ ہونے کا ثبوت دینا بھی ضروری۔ بنک
والے بیچارے ہمارے انگوٹھے اور انگلیوں کے نشانات لینے
کے لئے ہر طرح انکو دبا دبا کر کوشش کرتے ہیں مگر جب
انکی کوشش اور ہمت جواب دینے لگتی ہے تو شائد کچھ
بات بن جاتی ہوگی یا دستخط لیکر وہ اپنی اور ہماری جان
چھوڑتے ہیں ۔یعنی سب سامان واپس ہوگا صرف اعمال
ساتھ جائیں گے ۔ ٹائپ کرتے ہوے اکثر ہندسے، حروف غائب
ہوجاتے ہیں یا ادھر ادھر ہوجاتے ہیں ۔ اپنا لکھا ہوا خود
پڑھو تو کچھ کا کچھ نظر آتا ہے۔ یہ میں اپنا تجربہ بتا رہی
ہوں ۔ ضروری نہیں کہ سب کے ساتھ ایسا ہوتا ہو اس لئے
مجھے بڑا بھلا کہنے سے اجتناب کیا جائے ورنہ۔۔۔۔
ورنہ میں کچھ نہیں کرسکتی جناب!
اللہ پاک راضی ہوجائے۔ اعمال، عبادت، استقامت تو ہے نہیں
بس صرف کوتاہیاں نافرمانیاں اور ان گنت گناہوں کا ہی
سڑا بھسا ڈھیر ہے۔اب تو رب سے بس معافی کی التجا ہے۔
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ
جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّ شَیْبَةًؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُۚ-وَ هُوَ الْعَلِیْمُ
الْقَدِیْرُ(۵۴)
ترجمہ: کنزالایمان
اللہ ہے جس نے تمہیں ابتدا میں کمزور بنایا پھر تمہیں
ناتوانی سے طاقت بخشی پھر قوت کے بعد کمزوری اور
بڑھاپا دیا بناتا ہے جو چاہے اور وہی علم و قدرت والا ہے
BULLETS
Posted January 12, 2023
on:گولی اور گالی ۔۔۔
دونوں کتنی ملتی جلتی ہیں دونوں زہر قاتل ہیں آئیے دیکھتے ہیں کیسے
گالی کے رشتہ دار اور سہولت کار بھی ہیں جو گالی میں نفرت کا جذبہ ، جوش و جنوں، طنز، تضھیک، قہر آلود نظریں، چہرے اور ہاتھوں کے مختلف
مخالف کو جنونی بنا سکتے ہیں ، گالی کے اثر کو تیز کرنے میں کچھ جانوروں کے نام بھی شامل ہیں جو ہر زبان کی گالیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ گالیاں دینے
والے کا لہجہ جسمانی حرکات اور دہاڑتی آواز متاثرہ شخص کو دل کے دورے میں مبتلا کرسکتے ہیں ۔ جبکہ مستقل متواتر استمال جان لیوا بھی ہوسکتا ہے
یہ ایسا اقدام قتل ہوتا ہے جسکی چوٹ کا نہ نشان ہوتا ہے نہ آلہ قتل۔ آج ہماری پوری قوم اسی قبیح حرکت کا شکار ہے۔ گولی کی قسمیں بھی ہیں۔ عقلی اور اخلاقی
طور پر ہر عمر ، رشتے ، نیز کسی بھی منصب پر فائز افراد بے دریغ گولی کا بے خوف اور ڈھٹائ سے استمعال کر تے ہیں ۔ ایک قسم گولی باز کہلاتی ہے۔
یعنی بہانہ بنانا، جھوٹے وعدے کرنا، وقت کی پابندی سے فخریہ بے نیاز ہونا۔ بد گمانی پیدا کرنا، جھوٹی قسمیں کھانا۔ گولی کی مزید قسم گولی مارنے والے میں
جسارت ، بے رحمی ،اور حرام کمائ کی بے شرمی، بے حسی بے غیرتی ، ظلم، کے خمار سے بھرپور ہوتی ہے۔ قانون کیونکہ اندھا ہے اور انصاف نا پید اس
لئے ان کو کسی کے باپ کا ڈر نہیں ہوتا۔ موت اور اللہ کا ڈر بھی پیسے کی طاقت سے اندھا بہرا کر دیتا ہے۔ صُمٌّۢ بُكۡمٌ عُمۡىٌ فَهُمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَ ۙ ﴿2:18﴾ گولی
تیسری قسم نہایت اعلئ ہے۔ جانباز مجاہد اپنے ملک، قوم کی حفاظت ، شجاعت جاںفشانی سے 24 گھنٹے سرحدوں پر، مورچوں میں کرتے ہیں تو پوری قوم رات
کو پرسکون سوتی ہے۔ اپنے گھر بار ، خاندان کو حبالوطنی کے جزبے سے سرشار ہوکر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے بلاآخر شہادت کا درجہ پاتے
ہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال شاعر مشرق : افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
My golden memories
Posted January 10, 2023
on:
Words illumined as the book opened
They lighted up my gloomy room
Flowers of emotions blossomed
My feelings lighted up with delight
Bygone delightful moments enliven
A fragrance engulfed me and
Memories cherished and uplifted my life
Your scattered letters spread all over
Brightened the gloomy room like stars
Those lost moments, the days we spent
Engrossed in oblivion and an oasis of dreams
The foggy attire mountains, misty abodes
Holding thy hand, walking in daylight
In dense jungles or on concrete roads;
Are you disagreeing or riled on petty issues
Then adding sugar to tea and chuckling
Raising her beautiful eyes and smiling
Said; It makes the tea bitter if little sugar
And with more, it is no more tea
To see her heated and joyful
Steam and aroma from the cup of hot tea
The twinkling dancing stars all around
Enhancing cordial ambiance gripping
Depressing wet eyes, dying evening lamps
Heartbreaking to let pass those moments
My heart is sinking like that of sundowning
The opened old book carried me away from my past
نظم
کهلی کتاب تو لفظوں کی روشنی پهیلی
مرے اداس سے کمرے میں
پهول کهل اٹهے
چراغ جاں میں بهی
لو نے بهڑک کے ساته دیا
ہزار گزرے وہ لمحے
کہ جیسے جاگ اٹهے
مہک بهی جانفزا
سانسوں کو کر گئی گلشن
ترے خطوط جو بکهرے
ہوئے تهے چاروں طرف
ستارے بن کے
سیاہ رات میں چمک اٹهے
وہ بیتے لمحے
وہ دن رات
قصہ ہائے دور دراز
دور گمنام جزیروں کے سفر
دهند میں ڈوبے شهر
کہر میں لپٹے کہسار
دهوپ روشن میں اندهیرے جنگل
اجلی سڑکوں پہ
ترا ہاته پکڑ کے چلنا
روٹه کے چهوٹی سی باتوں پہ
ترا وہ لڑنا
چائے میں ڈال کے چینی کے بہانے
پهر سے
مسکراتے ہوئے
آنکهوں کو اٹها کے کہنا
“چائے میں چینی اگر کم ہو تو تلخی زیادہ
اور ہوجائے بہت میٹهی تو چائے نہ رہی”
روٹهنا روٹه کے من جانا
تها کتنا شیریں
گرم چائے کی پیالی سے
وہ اٹهتی ہوئی بهاپ
رقص کرتے ہوئے
مخمور ستارے ہر سو
ڈولتے ‘جهومتے
آنکهوں میں مناظر کیسے
بهیگتی آنکهیں
بهڑکتے ہوئے محفل کے چراغ
دل لگا شام ہوئے ڈوبتا سورج جیسے
کیا کهلی عہد گزشتہ کی کتاب
انور زاہدی
Utter Hastiness!
Posted November 8, 2019
on:
Utter Hastiness!
Perception of the universe
I’m aware of,
Images surface on the time tides
fatality is their destiny;
There’s no today and day after
The span of life is simply an instant
Countless metaphors rise to scatter
The loneliness of this symbol of infinity
Not only emergence to remain
Utter hastiness wins through here
each day the photo change in the tavern
spirit doesn’t even breathe life’s sip
The death angel wipes out life’s sip
What an eerie hastiness, every instant
gulp down the other instant
Dust and water blended to shape things
If the creation is to perish their, destiny
O, The Creator!
Don’t you loathe to see
Your creation perish into dust!

The Dance Saga
Posted November 5, 2019
on:
The dance saga
I was;
crucified in gala nights of the east
was celebrated in bars of the west
was sold out in the name of dignity
paid my pride in the name of dignity;
In the marketplace, I’m of no rate now
neither get any share if yet sold now
I’m like an object of ardent need
Keep to use when the beloved need
Shape of my body sketched and drawn
My dream version is linkage of dreams
Put up for sale from one buyer to other
Fostering in trash pool of waste garbage
My death loop of dance saga spinning
Sans budding, sans desires, gloom spinning
Poet: Tasnim Abdi


Friend! It’s like this
Posted September 28, 2019
on:
Friend! It’s like this
Stones have their own sphere
They’re valued with atomic numbers
The museum in Washington gallery
There’s a precious stones gallery
There’s a necklace of some queen
A crown of king renowned
Exquisite earrings of a princess
And, valuable chain of a prince
The exquisite collection brilliance
All around the ambiance
The diamond dazzling the eyes
The stunning sapphire grip the eyes
The crimson ruby-like beloved lips
Appealing to be cherished
The green emerald refreshing
The eyes of the beholder
My friend sharing price and atomic number
Of every gemstone placed there
The supremacy illuminates
In radiance of each gemstone
Everywhere in Capital Hill building
Where whispers of nameless workers
Echo on the tall majestic pillars
The great scholar Ali Shariati heard
That thousands of buried slaves
Weeping In the gigantic Pyramids
Unseen, unheard and, unremarked
The naïve tourists see pyramids
In thorough wonder
Yes, my friend!
Same is the story of priceless stones
Slavery has been decided to be sold
Slaves traded even today
Regardless of gain or pain, they’re sold
IMF’s checkbook and cruise missile
The code bearing slaves will
Be marked with atomic numbers
………………
“ہاں دوست ایسا ہی تھا “
پتھروں کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے
ان کے اٹامک نمبر ز سے
ان کی قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
واشنگٹن کے عجائب خانے میں
قیمتی پتھروں کی گیلری ہے
کسی ملکہ کا نیکلس
کسی بادشاہ کا تاج
کسی شہزادی کے آویزے
اور
کسی رئیس زادے کی مالا رکھی ہوئی ہے
جن کی چمک سے سارا ماحول
بقعہ نور بن چکا ہے
ہیرے کی چمک آنکھوں کو چکا چوند کر رہی ہے
نیلم کی نیلاہٹ نظر کو ساکت کر چکی ہے
یاقوت کی سُرخی
محبوب کے سرخ ہونٹوں کی طرح
بوسے کی طرف مائل کر رہی ہے
زمرد کی سر سبزی
دیکھنے والے کو شاداب نظر کر رہی ہے
میرا دوست مجھے
ہر پتھر کی قیمت اور اس کا اٹامک نمبر بتا رہا ہے
پتھروں کی چمک میں تکبرانہ مسکراہٹ ہے
کیپٹل ہل کی عمارت کے ہر گوشے میں
سرگوشیاں گونج رہی ہیں
وہ بلند و بالا ستون
جن پر گمنام غلاموں کے دستخط ہیں
وہی بے زبان نشان گونج رہے ہیں
اسی طرح
میرے عظیم مفکر شریعتی نے
سنا تھا کہ اہرام مصر کی آغوش میں
ہزار ہا مزدور قبروں میں رو رہے ہیں
اور بہرے تماشائی تماشا دیکھ رہے ہیں
ہاں دوست !
تمام بے قیمت پتھروں کی کہانی ایک سی ہے
غلامی کے شعبے کی نجکاری ہوچکی ہے
غلام آج بھی بِک رہے ہیں
تمام سود و زیاں سے عاری غلام بک رہے ہیں
آئی ایم ایف کی چیک بُک
اور کروز میزائل
ان کوڈ بردار جنس کے اٹامک نمبر کو طے کریں گے
………………
. Poet: Tasnim Abidi
Translator: Tanveer Rauf
Wealth surpasses soul
Posted September 27, 2019
on:Poet: Tasnim Abidi
Translated by: Tanveer Rauf
Wealth surpasses soul
The capital surpasses the capitalist
The decline in local currency
Makes a stock market uproar
Though he’s fond of my eyes –but—
He ignores my eyes’ hidden dreams
A Pandora box of universal religions
Faiths and beliefs gush from all sides
And, the man–worthless, just dust
Honesty adorned in showcases
The truth crucified hung on a crossroad
But the priceless gem of justice
Sparkle in a cut off a finger on the road
The finger of no value lies in the mud
Blood dripping from its every pore
Religion, politics, all the same
Love’s lost in the air too, only
The capital outshine the capitalist
Outward show veils the inner malice
Creating words in my lyrics
My intuition has consumed me up
The money surpasses the capitalist
سبقتِ ذات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرمایہ
سرمایہ دار پر سبقت لے گیا ہے
اسی لئے اسٹاک مارکیٹ میں
روپے کی قدر گر جانے پر شور مچ رہا ہے
اسے میری آنکھیں اچھی لگتی ہیں
مگر
ان میں چھپے خوابوں سے وہ نظر بچاتا رہتا ہے
ہر طرف مذاہبِ عالم کے صندوق سے
عقیدوں کے خزانے تقسیم ہورہے ہیں
اور انسان
انسان خاک کی قیمت مل رہا ہے
سچائی کی قیمتی مالا
شو کیس میں سجی ہے
مگر سڑک کے چوراہے پر
کسی سچے کی گردن
اب بھی صلیب پر جھول رہی ہے
اور
انصاف کا ہیرا تو کیسا انمول ہے
وہ سامنے ایک کٹی ہوئی انگلی میں جگمگا رہا ہے
انگلی خاک پر بے قیمت پڑی ہے
اور اس کی پور پور سے خون بہہ رہا ہے
مذہب سیاست،حد یہ ہے کہ
محبت کے بازار میں بھی
سرمایہ ، سرمایہ دار پر سبقت لے گیا ہے
حسنِ ظاہری
باطنی افلاس کو چھپانے میں مگن ہے
سخن پروری کے لئے راتب مہیا کرتے کرتے
میری شاعری بھی مجھ کو نگل رہی ہے
سرمایہ
سرمایہ دار پر سبقت لے گیا ہے
Tasnim Abidi
My beloved, don’t ask me for love shared before
I assumed that life’s brilliant as long as you’re there
Thy gloom is there; why bother of the world
Your beauty is the sustenance of splendor of the world
There’s no reality of anything other than your divine eyes
Should you be with me, fate would turn to joy
It occurs not, was my assumption
Countless of sufferings there besides love
Endless of delights there than lover’s reunion
Dark magic effects extended to eras
Draped in silk and velvet and brocade and satin
Vanity and timidity for sale hither and thither
Soaked in the dust and wet in blood hearts
Bodies suffering from diseases and infection
The mucus flowing of ulcers and sore infection
My eyes detain that sight too; what can I do
Thy loveliness is charismatic; but what to do
…………………………………………………………..
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
– فیض احمد فیض
I can’t defy saying what comes to my lips
But, if I speak truth, chaos is created
It saves temporarily, if I lie, but its deceit
My heart dislikes both truth and deceit
I’m afraid of both, here and hereafter
I can’t defy saying what comes to my lips
Go slowly; darkness moves away bit by bit
Search thy light within yourself bit by bit
Why people search for it outside their spirit
I can’t defy saying what comes to my lips
Whoever is attained with truth from Deity?
He gains knowledge of his soul and his Deity
He is thus the blessed soul of shrine of peace
Once elevated is never broken down to pieces
I can’t defy saying what comes to my lips
To be courteous is the very essential
A norm to which all follow is essential
Deity is in every human being we know
If He is in me; then why not in thou
Sometimes Deity is seen, at times hidden
I can’t defy saying what comes to my lips
When Bullah Shah’s blessing is with me
Without him, there could none else be
His ignoring of me is anguish and pain
My vision’s unable to foresee that pain
I can’t defy saying what comes to my lips
……………….