Archive for the ‘autobiography’ Category
a chapter from my autobiography
Posted June 21, 2017
on:کوئی غالباً30برس پہلے کی بات ہے ۔ میں ایک نجی اسکول میں پرنسپل کے عہدے پر کام کررہی تھی۔
ان دنوں امریکہ کے ویزے کی خبر بہت گر م تھی۔مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ حصول کا طریقہ کیا ہوتاہے ۔ ایدمنسٹریٹر صاحب اور اکاؤنٹنٹ بہت ذکر کرتے تھے ۔ایک دن میں نے بھی پوچھ لیا کہ آخر یہ ویزے کا چکر ہے کیا۔
دونوں نے مجھے کسی گنتی میں شمار نہ کرتے ہوئے بات بدل دی ۔ میں خاموش تو ہوگئی مگر ساتھ ہی شاکی اور دکھی بھی ۔ غریب ہیں تو کیا اسی دنیا کے باسی ہیں ۔ میں نے اِدھر اُدھر سے پتہ کیا تو معلوم ہوا لوگ ایک ایک ہفتے سے فرئیر ہال کے باغ میں اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ انٹرویو کے لئے اند رجاسکیں ۔
ہم نے بھی تصویر کھنچوائی،فارم بھرا اور صبح سویرے امریکن ایمبیسی پہنچ گئی۔ جب میری باری آئی تو پرس کی چیکنگ ہوئی۔ پرس میں سے لپ اسٹک ،چابیاں ،ٹافیاں ،ریز گاری نکل کر فرش پر پھیل گئیں ۔عملے نے غنیمت جانا کہ خود ہی اٹھا کر دے دیں که کچھ مزید نایاب اشیاء فرش پر نہ پھیل جائیں ۔ بہرحال ہم تلاشی کے بعد ایک بہت بڑے ہال میں پہنچے ۔ بیٹھنے کے بعد جو نظر اٹھائی تو ایک سے ایک اسمارٹ اسٹائلش خواتین تھیں جو باری کی منتظر اس یقین کے ساتھ بیٹھی تھیں کہ نہ صرف ویزہ ان کو مل جائے گا بلکہ شاید وہیں سے وہ ائرپورٹ جائیں گی اور سیدھی امریکہ کی زمین پر ہی قدم رنجہ فرمائیں گی ۔قیمتی زیورات ہیروں کی انگوٹھیاں یعنی بس کیا کہوں کچھ کہا نہیں جائے ۔حضرات کا عالم یہ تھاکہ قیمتی بریف کیس قیمتی لباس میں ملبوس ہم جیسے لوگوں کو نگاہِ غلط ڈال کر منہ پھیر لیتے ۔
ہال کے آخر میں تین کھڑکیاں تھیں جن میں 3افراد بیٹھے تھے جو انٹرویو کررہے تھے ۔اکثر خواتین وحضرات ڈھیروں ڈاکومنٹس اور ٹیڑھے منہ سے انگریزی بولنے کے باوجود ناکام آرہے تھے ۔
ہم نے کھڑکی کے پیچھے 3مختلف چہروں کو دیکھ کر دل میں سوچا کہ اے مالکِ دوجہاں تو کتنے چہروں اور شکلوں میں جلوہ گر ہے ۔مجھے کس شکل میں ملے گا! سوچ ہی رہی تھی کہ نام پکاراگیا۔نہ میرا کوئی بینک بیلنس تھا نہ جائیداد نہ قیمتی لباس نہ اسٹائل۔ بس یہ سوچتی ہوئی کھڑکی پر گئی کہ انسان کی کیا مجال اگر اللہ نے دینا ہے تو دے دے گا ورنہ ہم تو اپنے آپ میں خو ش ہیں ۔دوچار سوالوں کے بعد ہی کہا گیا کہ شام کو پاسپورٹ لے لینا۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ شام کو پاسپورٹ لینے میں کیا حکمت ہے ۔ بہت سے لوگوں کو اسی وقت مل گئے تھے ۔ خیر جی ،شام کو جو پاسپورٹ ملا تو اس میں ملٹی پل ویزہ لگا ہوا تھا جو رب کی مرضی۔
اسکو ل میں جب بتایا تو کوئی یقین نہ کرے کہ کیسے مل گیا! تو بھئی جو اس کی مرضی۔جانا تو تھا نہیں بس شوق اور چیلنج سمجھ کر کوشش کی اور حاصل کیا۔ یہ ضرور ہوا کہ لوگوں میں عزت سے دیکھنے جانے لگے کہ امریکہ کا ملٹپل ویزہ کے مالک تھے ۔ کافی برس گزرگئے اور کوئی خیال نہ آیا۔ مگر بھتیجے اکثر جب بھی فون کرتے توکہتے ایک دفعہ توآجائیں ۔ بیٹی کی شادی ہوچکی تھی، بیٹے کی بھی شادی ہوچکی تھی۔ چھوٹی بیٹی یونیورسٹی میں تھی۔ وہ جانتی تھی میں اس کی وجہ سے نہیں جاتی مگر خواہش بہت ہے ۔ لہذا اس نے ہمت دلائی کہ وہ اب بڑی اور سمجھ دار ہوگئی ہے میں اطمینان سے جاؤں۔
سو ہم نے ایک دفعہ پهر فارم بھرا۔ 1999 میں Fedex سے فارم اسلام آباد جاتے تھے ۔ تقریباً دس دن بعد انٹرویو کی تاریخ مل گئی۔ ہم اسلام آباد گئے ۔ اس دفع سوچا اسلام آباد میں انٹرویو ہے ، چلو ساڑھی پہن کر انٹرویو دیں گے ۔ رات کو تیار ی کرکے رکھ دی۔ صبح جب پہنا تو بلاؤز کی زپ ٹوٹ گئی ۔لوبھئ بهرم کا وہیں دم نکل گیا۔ رات کو جوکپڑے دهو کر لٹکائے تهے وہی الگنی سے اتار کر بغیر استری کے سلوٹوں والے پہن کر چلے گئے ۔ پیسہ جائیداد یا دستاویز تو کبھی همارے پاس ہوتی نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اگر اللہ کو منظور هو تو ویزہ بغیر کسی حُجّت کے مل جائے گا۔ وہی ہوا۔۔ پانچ سال کا ملٹی پل ویزہ مل گیا۔ نہ سوال نہ جواب نہ حیرت نہ غیرت۔ اس دفعہ ہم واقعی امریکہ دیکھنے کیا اپنے بھتیجوں ،رشتہ داروں اور پیاری بھابھی سے ملنے چلے گئے ۔خرچہ بھی بھتیجے نے اٹھایا۔اللہ اسکو سب کے ساتھ سلامت رکھے ۔
\
پھر کچھ سال بعد دوبارہ شوق ہوا کہ چلو اس دفعہ بچوں کے ساتھ کوشش کرتے ہیں ۔ یقین کریں پانچ سال کا ملٹی پل ویزہ مل گیا مجھے اور بچو ں کو۔ مگر ایک ہفتے بعد ہی 9/11 کا واقعہ ہوگیا تو ہم نے کبھی نہ جانے کے ارادے سے توبہ کرلی ۔ جہاں اپنی عزت ہی نہیں تو کیوں جائیں ایسے ۔
میری ایک دوست نے کہا کہ تمہیں آرام سے ویزہ مل جاتا ہے اور مجھے کبھی نہیں ملتا۔میرے ساتھ چلو تمہیں بھی مل جائے گا اور مجھے بھی شاید مل جائے ۔ اس ملک میں اس کا شوہر گیا ہوا تھا نہ وہ آتا تھا اپنی کاروباری مصروفیت کی وجہ سے نہ اِس کو ویزہ ملتا تھا۔ خیر جی ہم بینک بیلنس شیٹ لے کر پہنچ گئے ۔ جب کھڑکی کے اس طرف بیٹھے ہوئے افسر نے میری بیلنس شیٹ دیکھی تو محو حیرت سے کبھی مجھے دیکھے کبھی شیٹ کو۔ آخر میں نے پوچھا: ’’کیا ہواآفیسر؟‘‘تو وہ بولا: ’’یہ بتاؤ،تمہار ی بیلنس شیٹ میں صرف= Rs1200/نظر آرہے ہیں ۔میں کیسے ویزہ دے سکتاہوں ؟‘‘پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں ۔ٹیچر کی عزت ہر جگہ ہوتی ہے وہ بھی بہت مہذب لہجے میں بات کررہا تھا۔تھوڑی دیر بعدپھر اس نے کہاRs1200/=۔دیکھو یہ صرف Rs1200/=۔مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا:’’آفیسر ،میری توہین نہیں کرو۔ تم نے بیلنس شیٹ مانگی تھی وہ دکھادی ۔میں بھی جانتی ہوں کہ کہیں بھی جانے کے لئے رقم درکار ہوتی ہے ۔میرے وسائل ہیں تو آئی ہو ں نا۔ ویزہ دیناہے تو ورنہ میری توہین نہیں کرو‘‘۔ معذرت کے بعد اگلے دن پھر بلایا۔میں پھر چلی گئی۔ میری دوست کو پہلے دن ہی انکار ہوگیا تھا۔ اگلے دن پھر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتارہا۔۔ بولا:’’آج تک میں نے اتنا ٹائم کسی کو نہیں دیا یا ویزہ دے دیتاہوں یا انکار ہوجاتا ہے ۔اب تم بتاؤ میں کیا کروں !میری نوکری جائے گی اگر = Rs1200/پر ویزہ دیا‘‘۔ میں نے کہا،’’اچھا بتاؤ،میں کیا کروں ؟‘‘۔بولا :’’مجھے رقم لاکر دکھادو‘‘۔میں نے کہا:’’ٹھیک ہے ‘‘۔اگلے دن میرے رشتے دار ہیں ، وہ $4000 لے کر میرے ساتھ گئے ۔ دیکھ کر ہنسنے لگا۔بولا؛’’کہاں چھپا کر رکھے تھے؟‘‘
میں نے کہا ” یه تمهارا مسله نهیں هے که کہاں رکهے تهے ، تم نے کہا لا کر دکهاؤ تو دیکھ لو گِن بهی لو ”
پهر هنستے هوئے اس نے ویزہ دے دیا۔ مجھے تو جانا ہی نہیں تھا شوق پورا ہوگیا۔ کافی عرصے تک اس آفیسر سے ای میل پر رابطہ رہا۔ اچھا انسان تھا۔جہاں بھی ہو، خوش رہے ،آمین.
میں نے اپنی زندگی اس گانے جیسی گزاری هے –
~ میں زندگی کا ساتھ نبهاتا چلا گیا
هر فکر کو دهوئیں میں اڑاتا چلا گیا
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تها
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
هر فکر کو دهوئیں میں اڑاتا چلا گیا
جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا
جو کهو گیا میں اس کو بهلاتا چلا گیا
هر فکر کو دهوئیں میں اڑاتا چلا گیا
غم اور خوشی میں فرق نه محسوس هوں جہاں
میں دل کو اس مقام په لاتا چلا گیا
هر فکر کو دهوئیں میں اڑاتا چلا گیا